Page Nav

HIDE

تازہ ترین خبر:

latest

بھٹہ مزدورعورت کے مٹی میں گوندھتے خواب

  (رپورٹ،افشاں قریشی) غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی فرزانہ کوثرکی دکھ بھری داستان یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا...

 


(رپورٹ،افشاں قریشی)

غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی فرزانہ کوثرکی دکھ بھری داستان یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا کہ والدین نے اسکی شادی کردی،سہانی زندگی کے خواب آنکھوں میں سجائے سسرال جانے والی فرزانہ کا خیال تھا کہ شائد اسکی زندگی اپنے شوہر کے ساتھ پرسکون گزرے گی مگر شادی کے پہلے ہی سال اسکا خیال اس وقت غلط ثابت ہوگیا جب اس نے ایک بیٹی کو جنم دیا،ساس،نندیں،دیورانی جھٹانی کے رویے ہی نہیں بدلے شوہربھی بیوی سے لاپرواہ ہوچکا تھا،ایک سال اوربیت گیا دوسری بیٹی کا جنم ہوا تو فرزانہ کی زندگی گویا جہنم بنادی گئی،ہروقت لڑکیاں پیدا کرنے والی عورت کے طعنے دئیے جانے لگے،مارپیٹ اورزہنی تشددبھی فرزانہ کا مقدربن گیا،تیسری بارگودبھرنے کی نئی امید جاگی تو فرزانہ کو اس حد تک تشددکا نشانہ بنایا گیا کہ وہ شوہرکا گھرچھوڑنے پر مجبورہوگئ اورواپس ماں باپ کے گھرآگئی،دونوں بیٹیاں بھی ماں سے چھین لی گئیں تھیں،تیسری بیٹی کی پیدائش کے بعد فرزانہ کو طلاق دے دی گئی،ہمارے معاشرے میں طلاق کے بعدعورت کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے وہی فرزانہ کو بھی برداشت کرنا پڑا۔


آخر کارفرزانہ کی اس سے بڑی عمر کے شخص کے ساتھ دوسری شادی کردی گئی جو اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتا ہے،اب دوسرے گھر میں بھی فرزانہ کے پانچ بچے ہیں جن میں تین بیٹیاں اوردوبیٹے ہیں،فرزانہ بچوں کو بھی سنبھالتی ہے اورشوہر کیساتھ بھٹے پر بھی کام کرتی ہے۔

فرزانہ کا کہنا ہے کہ صبح سے شام تک میرے ہاتھ گھاراتھامے مٹی کی اینٹیں بناتے ہیں،کئی برسوں سے یہی کام کررہی ہوں،پھرگھرآکر کھانا پکانے کی ذمہ داری بھی نبھاتی ہوں،خود بھی پڑھنا چاہتی تھی مگرغریب گھر کی بیٹی تھی تعلیمی شوق بس شوق تک محدود رہا،اب چاہتی ہوں کہ کم ازکم میرے بچے تو سکول جائیں مگر کھانا پینا ہی بمشکل پوراہوتا ہے تو تعلیمی اخراجات کہاں سے برداشت کریں؟


فرزانہ نے یہ بھی بتایا کہ میں اورمیرا شوہرہفتے کی چھ سے آٹھ ہزاراینٹ تیارکرتے ہیں،ایک ہزاراینٹ کا ایک ہزارروپیہ معاوضہ ملتا ہے،مگربھٹہ مالک سے ایڈوانس کی مد میں لیئے گئے قرضے کی آدھی کٹوتی کردی جاتی ہے،ایک سوال کے جواب میں فرزانہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں صحت کی سہولیات بھی میسرنہیں ہیں،اس دورمیں بھی پانچوں بچوں کی پیدائش گھر میں ایک دائی کی مدد سے ہوئی،حمل اوربچے کی پیدائش کے بعد اچھی خوراک بھی میسرنہیں ہوتی،پھل فروٹ اورگوشت کا تصوربھی محال ہے،یہی مسائل دیگر خواتین کے بھی ہیں،حکومت کی طرف سے بھی آج تک مردیا خاتون ہمارے مسائل سننے نہیں آئے،مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ووٹ کیسے ڈالتے ہیں،یہاں کوئی بھی عورت ووٹ دینے نہیں جاتی نہ ہی کوئی مانگنے آتا ہےحالانکہ میرا تو شناختی کارڈ بھی بنا ہوا ہے۔


 بھٹہ پر ہی کام کرنے والی نوجوان لڑکی سعدیہ بی بی کہتی ہیں کہ میں نے ہوش سنھبالا تو خود کو بھٹے پر ہی دیکھا،مٹی سے ہی کھیلتے کھیلتے جوان ہوگئی،جب سکول جانے کی عمر تھی اس وقت میرے ہاتھ میں گھارا دے دیا گیاکہ اینٹ بنائو اورآج تک بنا رہی ہوں،بہت شوق تھا کہ میں بھی تعلیم حاصل کروں مگرماں باپ غریب تھے اس لئے صرف قرآن پاک پڑھا،بیمارہوجائوں تو ابو گھرمیں ہی دوائی لے آتے ہیں مگرہم ہسپتال نہیں جاسکتے،اب عید کے بعد والدین کی مرضی سے میری شادی ہورہی ہے،مجھے نہیں معلوم میرا جیون ساتھی کیسا ہوگا،سعدیہ کا کہنا تھا کہ کسی کو اچھے کپڑے اورجوتے پہنے دیکھتی ہوں توجی کرتا ہے کہ ایسے جوتے اورکپڑے میرے پاس بھی ہوں مگر میں اپنی یہ خواہش دل میں ہی رکھتی ہوں،امی ابو کو نہیں بتاسکتی کیونکہ میں جانتی ہوں انکے پاس پیسے نہیں تو کہاں سے خرید کردیں،مجھے تو اکثرعید پر بھی نیا جوڑاپہننا نصیب نہیں ہوتا،ہم جیسے غریب لوگوں کی عیدیں اورخوشیاں نہیں ہوتیں۔


بزرگ خاتون پروین اختر نے بھی پرنم آنکھوں کیساتھ بتایا کہ پوری زندگی بھٹوں پر کام کرتے گزرگئی،قرضہ لیکر بیٹیوں کی شادیاں کیں،مگر قرضے کا بوجھ کم نہیں ہورہا،ہم بھی اسی ملک کی عورتیں ہیں مگر ہمیں صحت کی نہ ہی تعلیم کی سہولیتں دی گئیں،غربت کی چکی میں پس رہی ہیں،کبھی کسی نے ووٹ کا حق بھی نہیں دیا،مجھے تو لگتا ہے ہمیں انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔

مذکورہ خواتین کے ہی یہ مسائل نہیں بلکہ بھٹوں پر کام کرنے والی تمام عورتوں کے ایک جیسے مسائل ہیں ایک جیسے دکھ ہیں اورالمیہ یہ ہے کہ ان عورتوں کے مسائل پر توجہ دینے والا بھی کوئی نہیں،بنیادی سہولیات سے محروم ان خواتین کی ان اداروں تک بھی رسائی نہیں جو میڈیا پر چیخ چیخ کر خواتین کے حقوق پر بات کرتے ہیں۔

اگرچہ اس حوالے سے ملک کے نامورتحقیقاتی ادارے ایس ڈی پی آئی نے کنونشنز آئی ایل اوپر عمل پیرا ہونے کیلئے ایک فریم ورک بھی مرتب کیا ہوا ہے جو ایس ڈی جیز اقوام متحدہ اورآئی ایل اوکے لیبرقوانین پر عملداری کو بہت آسان بنا رہا ہے،اس حوالے سے وطن عزیز پابند ہے کہ وہ اس فریم ورک پر عملدرآمد کرائے،ایس ڈی جیز کے اہداف اوراسکا فریم ورک تمام پاکستان کے باسیوں کے بنیادی حقوق سے متعلق ہے جس میں خواتین بھی شامل ہیں،اسکے تحت پینے کا صاف پانی،باتھ رومز کی سہولت،صاف ماحول کی فراہمی،بچوں کو تعلیمی سہولیات دینا،جو بھی لیبرقوانین ہیں ان پر عملدرآمد کرانا اورمزدوروں کی اوآئی بھی میں رجسٹریشن کرانا شامل ہے مگر افسوس کہ بھٹوں پر کام کرنے والے خصوصاًخواتین کسی بھی سہولت کو حاصل کرنے سے محروم ہیں۔


اس حوالے سے ایجوکیشن سیکرٹری پاکستان ورکرزفیڈریشن اسد محمود کا کہنا ہے کہ صرف اسلام آباد میں سات سوسے زائد بھٹے ہیں جن میں سے رجسٹرڈ بھٹوں کی تعدادصرف 80ہے باقی سب غیررجسٹرڈ ہیں جنکی رجیسٹریشن کیلئے ہماری ڈی سی اسلام آباد سے بات چیت ہوئی ہے،ہماری کوشش ہے کہ سب کو رجسٹرڈ کرائیں،ان میں کام کرنے والے مزدوربھی غیررجسٹرڈ ہیں،ہربھٹے پر تیس سے چالیس مردوخواتین کام کررہے ہیں جن میں خواتین کی تعدادبیس سے پچیس ہے،اسدمحمود کے مطابق خواتین کا کام مٹی گوندکرکچی اینٹ بنانا ہوتا ہے،پورا خاندان کام کرتا ہے تو انکو پتھیر کہا جاتا ہے،ان میں سے زیادہ ترکے شناختی کارڈ نہیں بنے ہوئے،جس کیلئے ہم نے نادراسے ملکر کوشش بھی کی مگر ہر وقت مٹی میں کام کرنے کی وجہ سے انکے انگھوٹے کے فنگرزپرنٹ ہی ختم ہوچکے ہیں اسکے باوجودمالکان کی مدد سے بہت سے مزدورمردوخواتین کے ہم نے آئی ڈی کارڈز بنادئیے ہیں،مگر ابھی بھی بڑی تعدادکارڈز سے محروم ہے۔

اسدمحمود کا مزید کہنا ہے کہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ خواتین کے صحت کے مسائل بھی ان گنت ہیں مگر رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے سوشل سیکیورٹی ہسپتال سے بھی وہ علاج نہیں کرواسکتیں،اگرضلعی انتظامیہ چاہے تو سب کچھ ممکن ہے،مگر افسوس یہاں قوانین تو ہیں مگران پر عملدرآمد نہیں ہے۔


پچیس سال سے اقوام متحدہ سمیت سائوتھ ایشیا اورافریقہ میں انسانی حقوق پر اپنی خدمات سرانجام دینے والے لیبرایکسپرٹ ڈاکٹر سیف اللہ چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سب سے بڑی بھٹہ انڈسٹری ہے اورسب سے زیادہ بھٹے پنجاب میں ہیں،ان میں بہت سے مزدورپورے خاندان سمیت کام کرتے ہیں انکو پھتیر کہا جاتا ہے،جس علاقے میں اینٹوں کی مانگ زیادہ ہوگی وہاں دوسوسے ڈھائی سوورکرزکام کرتے ہیں جن میں خواتین کی بھی بڑی تعدادشامل ہے،مگربھٹہ مالکان ان ورکرزکو بطورورکرزتسلیم ہی نہیں کرتے بلکہ انکو ٹھیکے دارمانتے ہیں،کیونکہ اگرایک فیملی بھٹے پر آئے گی تو اسکا سربراہ ہی منشی یا مالک کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے،یہاں عورت کہیں نظرنہیں آئے گی،معاہدے کے بعد خواتین اپنے مردوں کیساتھ ملکر کام کرتی ہیں،یہ خواتین خود بھی اپنے حقوق کیلئے آوازبلند نہیں کرتی ہیں،تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہوتی ہیں خاص طورصحت عامہ کے مسائل بہت گھمبیر ہیں،اکثربھٹوں کے قریب بنیادی ہیلتھ یونٹس بھی موجود ہیں اسکے باوجود خواتین بیماری کی صورت میں وہاں نہیں جاتیں کیونکہ انکا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ان سے اچھی طرح بات نہیں کرتے اس لئے سٹورسے دوائی لے لیتی ہیں،دوسراوقت نہیں یہ کہہ کربھی اپنی صحت سے غاٖفل رہتی ہیں،انکے مسائل این جی اوزنہیں بلکہ حکومت اگرچاہے تو حل کرسکتی ہے،اس کیلئے دیرپاپالیسیاں بنانا ہونگی۔

ڈاکٹرسیف کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگران خواتین کو بجلی کے بغیر چلنے والی ایسی مشینیں دے دی جائیں جو ہاتھ سے باآسانی چلائی جاسکیں تو اس سے نہ صرف کام کی پیداوارپڑھے گی بلکہ خواتین کو بھی کم محنت میں زیادہ کام کرنے کا موقع مل سکتا ہے،خواتین کو پورا معاوضہ دیا جائے اورانہیں بااختیاربنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ انکے مسائل میں بھی کمی آجائے گی۔بھٹوں کو بھی زگ زیگ ٹیکنالوجی میں تبدیل کردیا جائے تو خواتین سمیت تمام ورکرزہی زیریلے دھویں سے محفوظ نہیں ہونگے بلکہ اردگردکے ماحول پر بھی مثبت اثرات مرتب ہونگے۔اگرہم یہ کہتے ہیں کہ آج کی بچی کل کی ماں ہے تو پھر ہمیں اس ماں کی فلاح وبہبود کیلئے مل بیھٹہ کراقدامات کرنا ہونگے،مزدوربچیوں کو کم ازکم پانچویں تک تعلیم دلوائی جائے،آرٹیکل پچیس اے کی حکومت کو کچھ تو پاسداری کرنی چاہیے۔

صدراسلام آباد بارایسوسی ایشن ایڈووکیٹ راجہ شکیل عباسی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ بھٹوں پر کام کرنے والی خواتین ہمارے ملک کی شہری ہیں،جتنے ہمارے حقوق ہیں اتنے ہی انکے بھی ہیں،انکوبنیادی سہولیات کی فراہمی ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے،بہت جلد ڈپٹی کمشنر سے اس سلسلے میں ملاقات کروں گا اورجو بھی بہترہوگاہم اقدام اٹھائیں گے،اگرکسی خاتون کیساتھ کوئی بھی ناانصافی یا زیادتی ہوتی ہے تو ہمارے پاس فری لیگل ایڈوائزری کی سہولت موجود ہے،ایسی خاتون کا بغیرفیس کیس لڑا جائے گا۔

این سی ایچ آر کی چئیرپرسن رابعہ جویری آغا نے بھٹہ مزدوروں کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھٹہ پر کام کرنے والے مزدوروں خصوصا خواتین اورنوجوان لڑکیوں کی صورتحال انتہائی افسوسناک ہے،اکثر خواتین جنسی زیادتی کا بھی شکارہوتی ہیں جبکہ کئی غیرقانونی طریقے سے اسمگل بھی کی جاتی ہیں،بدقسمتی سے خواتین اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکیوں کو اس لئے بھی برداشت کرتی ہیں تاکہ انکی ملازمت برقراررہے،ہمارا ادارہ ایسی خواتین کے تحفظ اورفلاح بہبود کیلئے کام کررہا ہے،ہم ایسی خواتین کیلئے آوازاٹھاتے رہیں گے۔

بھٹہ ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری غٖضنفر کہتے ہیں کہ بھٹوں کے حوالے سے زیادہ ترالزامات ہی ہیں جو پرانے ریکارڈ ہیں،اب سوشل میڈیا کا دورہے،کسی بھی خاتون کے ساتھ نارواسلوک یا زیادتی ہوتومزدوروں کے بچے ہی اپنے ٹچ موبائل سے ویڈیو بنا کر وائرل کردیتے ہیں،اس لئے اب ایسی کوئی زیادتی نہیں کی جاتی،ویسے بھی ہمارے بھٹوں میں اب زیادہ ترلیبر افغانی ہیں جو اپنی خواتین کو گھروں مین ہی رکھتے ہیں،چندمقامی خاندان کام کرتے ہیں مگر اب انکے بچے بھی تعلیم حاصل کررہے ہیں،خواتین کو زیریلے دھویں سے بچانے کیلئے بہت سے بھٹے اب زگ زیگ ٹیکنالوجی کے تحت چل رہے ہیں۔صحت کے حوالے سے بھی بنیادی ہیلتھ یونٹس ہیں مگر ان پڑھ ہونے کی وجہ سے خواتین خود ہی نہیں جاتی،انکے شوہروں سے میں خود بات کرچکا ہوں کہ خواتین کو ہسپتال لے جایا کریں خصوصا حاملہ خواتین کو جانا چاہیے مگر وہ خود دائیوں سے ہی مدد لیتی ہیں۔جہاں تک خواتین کو ہاتھ سے چلنے والی مشنینں فراہم کرنے کی بات ہے یہ تجربہ کرچکے ہیں مگر کامیاب نہیں ہوسکا،ویتنام جانے کا اتفاق ہوا تو دیکھا وہاں سب بھٹے فیکڑی میں تبدیل کردئیے گئے جہاں جدید مشنیں ہیں مگر ہمارے ہاں فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے پرانے طریقے ہی رائج ہیں،حکومت بھی مدد نہیں کرتی ورنہ ہم بھی جدید مشینیں نصب کرسکتے ہیں،اوراب ایڈوانس دینے کی روایت بھی ختم ہوچکی ہے۔

بلاشبہ مذکورہ تمام لوگوں کی آرا سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھٹوں پر کام کرنے والی خواتین کی زندگیاں دیگر عام خواتین کے مقابلے مین زیادہ تلخ ہیں،اگرانسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے تمام ادارے باہم ملکر ایسی پالیسیاں مرتب کریں جو دیرپاہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ بھٹہ مزدورخواتین کے حالات زندگی بہترنہ ہوسکیں،اس کیلئے صرف بحث مباحثے سے نکل کرعملی اقدامات اٹھانے ہونگے اورحکومت کو ترجیح بنیادوں پر متحرک ہونا ہوگا۔ورنہ بھٹے پر کام کرنے والی خواتین کی خواہشات اسی مٹی میں نسل درنسل دفن ہوتی رہیں گی جس سے وہ اینٹیں بناتی ہیں اورہم ان سے عالی شان گھربناتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں