Page Nav

HIDE

تازہ ترین خبر:

latest

مادرِ وطن میں تعلیمی ایمرجنسی اور زمینی حقائق

   گزشتہ روز ایک پارلیمنٹری اراکین کے گروپ کی سرپرستی میں قومی تعلیمی ایکسپو2024کا انعقاد وفاقی دارالحکومت میں ہوا جس میں ملک بھر کے سرکاری،...

 


 گزشتہ روز ایک پارلیمنٹری اراکین کے گروپ کی سرپرستی میں قومی تعلیمی ایکسپو2024کا انعقاد وفاقی دارالحکومت میں ہوا جس میں ملک بھر کے سرکاری، نیم سرکاری، آئی این جی اوز، تعلیمی ماہرین، سوشل ایکٹویسٹس، نجی تعلیمی اداروں کے اسٹیک ہولڈرز اور سول سوسائٹی کے ذمہ داران کی شرکت ہوئی۔ اس ایکسپومیں جہاں اور بہت سی قابل ذکرسفارشات پیش کی گئی وہاں سرکاری اعلان بھی ہوا کہ30اپریل 2024کو وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محمدشہباز شریف تعلیمی ایمرجنسی پر قومی کانفرنس کا انعقاد کرنے جارہے ہیں۔یہ ایک خوش آئند اقدام ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری نئی حکومت کے لئے آغاز میں ہی اپنی ترجیحات کے تعین کا اشارہ دے رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کی دنیا بھر میں جن اقوام نے بھی قومی ترقی کے اہداف کوحاصل کیا ہے انہوں نے تعلیم اپنی ترجیح نمبر ون مقرر کی ہے تاریخ گواہ ہے نبی آخرالزماں معلم اعظم حضرت محمد ﷺنے بھی ریاستِ مدینہ کی بنیاد میں غیرمسلم قیدیوں کو بھی تعلیم دینے کے عوض قید معاف کرنے کا اعلان کرکے تاقیامت اصول مقررکردیا۔ میری آج کی تحریر کے لئے کچھ اور اہم تعلیمی موضوعات بھی تھے لیکن موجودہ حکومت کے تعلیمی ایمرجنسی پر ہی قارئین کی توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہوں۔نئی روشنی سکول، ایچ ون ٹیچ ون(ایک پڑھا لکھا ایک ان پڑھ کو پڑھائے)، تعلیم سب کے لئے، میلینیم ڈویلپمنٹ گولز اور اب سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز یہ وہ بڑے اقوامِ عالم کے ساتھ ہمارے ذمہ داران کے دستخط شدہ چارٹرز ہیں جن کی کامیابی اور ناکامی پر مجھے آج اس لئے کچھ نہیں کہنا کیونکہ ہر ذی شعور ان تمام اہداف پر بخوبی علم رکھتاہے۔ مرحوم ڈاکٹرمحبوب الحق سے لیکر آج تک کے تمام منصوبہ سازوں، پالیسی سازوں اور آلہ کاروں کے نتائج پر بھی کئی بار روشنی ڈالی گئی۔ اگرتوآج بھی تجربہ کار حکمرانوں کو سیاسی مشیروں نے سماجی شعبے کی بہتری کے لئے زبانی جمع خرچ والے مشورے ہی دینے ہیں توقومی تعلیمی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا نظرنہیں آرہا لہذا ہمارے زمینی حقائق اس چیز کا تقاضا کرتے ہیں کہ انسانی سرمائے کو لائف سکلز کے ذریعے جس طرح ہمارے ریجن میں اور دیگرچھوٹی چھوٹی اقوام نے فیصلے کرکے ان کو عملی جامہ پہنایا ہے ہمیں نت نئے تجربات سے توبہ کرنی چائیے۔ مجھے لگتا یوں ہے کہ کچھ عرصے سے ایک خاص طبقہ پورے ہوش و ہواس سے قومی تعلیمی وسائل کو اس طرح ضائع کررہا ہے جس طرح انہوں نے مرنا ہی نہیں ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو یا تو یہ بات بالکل سمجھ آتی ہی نہیں اور یا پھر وہ سمجھتے سب کچھ ہیں لیکن ان کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ڈاکٹراور انجینئر کی غلطی کا نقصان تو انفرادی ہوتا ہے جبکہ اُستاد کی غلطی کا خمیازہ قوموں کی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ تعلیمی ایکسپو میں سرکاری ترجمان نے بڑے فخر سے تعلیمی بجٹ کے علاوہ وفاقی نظامتِ تعلیمات کو 30سے زائد ڈونرز، متوسلین اور متعلقین کی معاشی و انتظامی حمایت حاصل ہونے کا اعلان بھی کیا یقینا سرکاری نظامِ تعلیم پر یہ ساری مہربانیاں ایک طرف تویہ سارا تعاون فی طالب علم ماہانہ اخراجات میں اضافے کا سبب بنتاہے اور دوسری جانب ہماری کمزور حکومتوں کے  چُست وچالاک مشیران کی عیاشی کا بھی راستہ ہموار کرتاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دستورِ پاکستان نسلِ نو کو جو مفت اور لازمی تعلیم کا حق عطاکرتا ہے اس کی نافرمانی ہے کہ ایک ہی ریاست میں سرکاری، نجی،مذہبی اور این جی اوز کے زیرسایہ درجنوں طبقاتی نظام تعلیم ہوں تو بانیانِ پاکستان کے خواب پر ہم ایک مضبوط قوم کیسے بن سکتے ہیں؟ پاکستان کے شعبہ تعلیم میں بہت سارے عالمی ڈونرز اور وسائل کا بھی عمل دخل ہے حال ہی میں ملالہ یوسفزئی نے بھی ایک مراسلے کے ذریعے نئی بننے والی حکومت کو بھی پیغام دیا ہے کہ پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کو خاص طور پر بہتر کرنے کے لئے ہمیں قومی تعلیمی بجٹ کو کم از کم4فیصد تک بڑھاناہوگا۔ اسی طرح برطانوی حکومت کی ہائی کمشنرجین میریٹ و کنٹری ڈائریکٹربرٹش کونسل مسٹرجیمزہیمپسن نے وفاقی وزیرتعلیم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور وفاقی سیکرٹری تعلیم محی الدین وانی کے ہمراہ تعلیمی ایمرجنسی کے انعقاد پر باہمی مشاورت بھی کی ہے علاوہ ازیں دیگرفورمز بھی نئی حکومت کی تعلیمی شعبہ میں اصلاحات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں جو کہ ہم سب کے لئے خوش آئند ہے۔ ابھی اسی ماہ کے پہلے عشرے میں وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان نے چک شہزاد اسلام آباد کے قریب دانش اسکول کے قیام کی جگہ کا معائنہ کرتے ہوئے کہا کہ 30ایکڑزمین کی حامی بھرنے پر چیف کمشنر اسلام آباد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پنجاب کے بعد گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور دیگر علاقوں میں بھی یتیم و مستحق بچوں کے لئے دانش سکول قائم کرنے کا اعلان کیا۔ جناب وزیر اعظم دستورِ پاکستان ہر بچے کو دانش سکول جیسا یکساں،لازمی اور مفت نظامِ تعلیم فراہم کرنے کا ہر حکومت کو پابند بناتا ہے پاکستان میں 2کروڑ62لاکھ سکول جانے کی عمر کے بچوں کا تعلیمی اداروں سے باہر ہونا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ حکومتِ وقت یکساں قومی نظامِ تعلیم رائج کرئے اس سلسلے میں جو افراد و ادارے حکومت کے ہاتھ بٹائیں ان کے لئے مشکلات کھڑی کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اگر واقعی ہماری حکومت تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ اور اسکے اہداف کو حاصل کرنے میں مخلص ہے تو تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لے کر وے فارورڈ بنایا جا ئے وہ دن دور نہیں جب ہم بھی خطے اور اقوام ِ عالم کے سامنے تعلیمی ترقی کے اہداف حاصل کرکے اپنا اور قوم کا سرفخر سے بلند کرسکیں گے. انشاء اللہ

کوئی تبصرے نہیں