Page Nav

HIDE

تازہ ترین خبر:

latest

خاک میں لپٹے ننھے خواب

  (رپورٹ،نرگس جنجوعہ) ابھی میری آنکھ لگے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ موبائل فون کی گھنٹی بج اٹھی فون اٹھایا تومیرے گھر کی ملازمہ کی نہایت تھکی ا...

 

(رپورٹ،نرگس جنجوعہ)
ابھی میری آنکھ لگے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ موبائل فون کی گھنٹی بج اٹھی فون اٹھایا تومیرے گھر کی ملازمہ کی نہایت تھکی اورمایوسی میں لپٹی آواز سنائی دی,ڈاکٹرانی صاحبہ میرے بچے کی طبیعت بہت خراب ہے،پڑوسیوں کے فون سے کال کر رہی ہوں خدا کا واسطہ ہے میری مدد کریں میں اکیلی ہوں اتنے پیسے بھی نہیں کہ گاڑی کر کے آپ کے پاس بچے کو لا سکوں اگرآپ میرے بچے کو دیکھنے آ جائیں تو ساری زندگی دعائیں دوں گی۔میرا بچہ ہی میری زندگی کا آسرا اور سہارا ہے۔میں نے فوراً فون رکھا بیگ اٹھایا اور گاڑی نکال کر سکینہ کے گھر کی طرف چل پڑی راستے سے کچھ دوائیاں بھی لیں۔سکینہ کے گھر پہنچی تو اس کا آٹھ سالہ بیٹا بخار میں تپ رہا تھا، میں نے بچے کو فوری دوائی کھلائی۔سکینہ کو اس کی دیکھ بھال کیلئے ہدایات دیں کچھ پیسے دیئے تاکہ ایمرجنسی کی صورت میں وہ بچے کو ہسپتال پہنچا سکے۔جب بچے کی طبیعت کچھ سنبھلی تو واپس گھر لوٹ آئی۔دوسرے دن سکینہ گھر آئی اس نے بتایا کہ میرا بیٹا اب کافی بہتر ہے۔اس نے مجھے ڈھیر ساری دعائیں دیں ۔ابھی اس کی دعاوٗں کا سلسلہ جاری تھا  کہ میرے کانوں میں زور زور سے آواز پڑی اٹھ مشعال کام پر بھی جانا ہے دیر ہو رہی ہے اٹھ ناشتہ کر لے دیر ہو گئی تو مالک نے بڑا ذلیل کرنا ہے۔ماں کی آواز سے آنکھ کھلی تو خود کو زمین پر پھٹی پرانی چادر پر لیٹے ہوئے پایا۔میلے کچیلے کپڑے جسم پر تھے ،پاوٗں میں پھٹے جوتے پہنے اور منہ دھوئے بغیر چائے کے ساتھ سوکھی روٹی کھائی اور ماں باپ بہن بھائیوں کے ساتھ کام کرنے چل پڑی۔راستے میں سوچتی رہی۔کاش میرا خواب حقیقت ہوجائے میں بھی تعلیم حاصل کروں،پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بنوں،غریب لوگوں کی خدمت کروں ،اچھا انسان بنوں جس کی سب عزت کریں۔


 یہ کہانی ہے بھٹے پر کام کرنے والی بارہ سالہ مشعال کی جس کے کچھ خواب ہیں مگر والدین کی جانب سے لیے گئے قرض کو اتارنے کیلئےاسکے ننھے ہاتھ پتھر کی طرح سخت ہو چکے ہیں۔اس کا کہنا ہے کہ میں یہ کام نہیں کرنا چاہتی،میں دوسرے بچوں کی طرح اسکول جانا چاہتی ہوں۔معاشرے کا مفید شہری بننا چاہتی ہوں مگر مجبور ہوں اپنے خواب پورے نہیں کر سکتی۔مشعال کی والدہ فرزانہ کوثر کہتی ہیں کہ میری بھی خواہش ہے کہ میری بچیاں پڑھیں مگر ہم لوگ بھٹہ مالکان کے قرض تلے دبے ہیں چاہ کر بھی اس قید سے آزاد نہیں ہو سکتے۔مشعال بہت حساس بچی ہے درد دل رکھنے والی ہے،اس کی خواہشات کو پورا ہوتا دیکھنا چاہتی ہوں مگر کچھ کر نہیں سکتی۔اگر ہمارے حکمران چاہیں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے مگر افسوس انہیں ہم جیسے لوگ کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں۔کچھ دیگر والدین سے بھی بات ہوئی جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہمارے بچوں سمیت یہاں کوئی بھی بچہ اسکول نہیں جاتا نہ ہی یہاں کوئی سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ موجود ہے جو ہمارے بچوں کو مفت تعلیم دے سکے۔بھٹے پر والدین کے ساتھ کام کرنے والے ایک اور بچے حیدر نے نہایت معصومانہ انداز میں اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ فوجی بننا چاہتا ہوں ،مجھے فوج کا لباس بہت پسند ہے مگر میں تو سادہ پنٹ شرٹ بھی خرید کر نہیں پہن سکتا کیونکہ میرے والدین کے پاس اتنی گنجائش ہی نہیں کہ وہ میری مرضی کے کپڑے بھی مجھے لے کر دے سکیں۔


یہ صرف مشعال اور حیدر کی کہانی نہیں ان جیسے ان ہزاروں بچوں کے جذبات کی ترجمانی ہے جو اپنی خواہشات کو مٹی میں گوند کر اینٹ کے بھٹوں میں جلا دیتے ہیں۔ایسا کیوں ہے؟کیا یہ بچے اس ملک کے باسی نہیں؟کیا یہ ہمارا مستقبل نہیں؟کیا یہ انسان نہیں؟کیا ان کے کوئی حقوق نہیں؟کیا ان کی نسلیں ایسے ہی بھٹہ مالکان کی غلامی میں اپنی زندگیاں تباہ کرتی رہیں گی؟


پاکستان ورکرز فیڈریشن کے ایجوکیشن سیکرٹری اسد محمود کے مطابق ملک میں اس وقت اسلام آباد میں 700سے زائد بھٹے کام کر رہے ہیں جن میں سے صرف 80 سے90رجسٹرڈ ہیں۔ان بھٹوں پر خواتین کے ساتھ ساتھ بچے بھی کام کرتے ہیں۔ہر بھٹے پر 10سے15بچے کام کررہے ہیں جن کی عمریں 6سے14سال کے درمیان ہیں۔تاہم انہیں مزدور تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔بھٹہ مالکان کہتے ہیں کہ ہم ان سے کام نہیں کراتے والدین اپنی سہولت کیلئے انہیں ساتھ لاتے ہیں جبکہ والدین کا کہنا ہے کہ سب گھر والے مل کر کام نہ کریں تو گزارا ممکن نہیں۔ان بھٹوں پر بچوں سمیت مزدوروں کو ایک فیصد بھی انسانی حقوق میسر نہیں۔تعلیم جو ہر بچے کا بنیادی حق ہے اس سے بھی انہیں محروم رکھا جاتا ہے۔حکومت کی جانب سے اس مسئلے کو بالکل نظر انداز کیا جاتا ہے۔صرف سیالکوٹ اور شیخوپورہ میں بنیاد نامی این جی اوبھٹے پر کام کرنے والے بچوں کی تعلیم کیلئے کچھ کام کر رہی ہے مگر حکومتی سرپرستی کے بغیر ان کی کوششیں بھی سود مند ثابت نہیں ہو رہیں۔اسد محمود نے بتایا کہ بچوں کی تعلیم کے علاوہ دوسرا بڑا مسئلہ ان بچوں کی شناخت کا ہے۔بھٹوں پر کام کرنے والے اکثریتی افراد کی کوئی شناخت ہی نہیں۔ان کے شناختی کارڈ نہیں بنے تو ان کے بچوں کی رجسٹریشن بھی نہیں ہو سکتی اس لئے یہ بچے بغیر کسی شناخت کے زندگی گزار رہے ہیں۔ہم نے انہیں شناخت دلوانے کی بہت کوشش کی مگر انتظامیہ ساتھ نہیں دے رہی ۔ہمارے ہاں قانون ہے مگر عمل در آمد نہیں جس کی وجہ سے یہ بچے معاشرے کا کارآمد شہری بننے کے بجائے معاشرے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ہم نے آئی ایل او کوتجویز بھیجی ہے کہ وہ ان مزدور بچوں کیلئے ماڈل اسکول بنوائیں۔تاہم اس کام کا آغاز اپنے گھر سے کرنا ہو گا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟ہمارا نظام؟حکمران؟یا معاشرہ؟

ان سوالات کے جوابات کی تلاش میں دیگرحکومتی اور غیر سرکاری اداروں کے ذمہ داران سے رابطہ ہوا۔

نیشنل کمیشن آف چائلڈ رائٹس میں تین سال تک چیئرپرسن کی ذمہ داریاں نبھانے والی افشاں تحسین کہتی ہیں کہ میں نے اپنے دور میں بھٹہ مزدور بچوں کے حقوق کیلئے بہت کوششیں کیں مگرزیادہ بارآورثابت نہ ہوسکیں کیونکہ ہمارے ہاں قوانین تو موجود ہیں مگر عملدرآمد ناپید ہے۔اس کی بنیادی وجہ ہمارے سیاسی رہنماوٗں کی عدم توجہی اور اداروں کے مابین روابط کی کمی ہے۔سرکاری افسران کہتے ہیں کہ بھٹہ مالکان یا والدین پر بچوں سے کام نہ لینے کے حوالے سے سختی کرینگے تو یہ بچے بھوکے مر جائیں گےکیونکہ یہ غریب ہیں یہی کہہ کر اس مسئلے کو چھیڑا ہی نہیں جاتا جبکہ بچوں کو بنیادی تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں لانگ ٹرمز پالیسیز نہیں بنائی جاتیں۔ان بچوں کا مستقبل خراب کرنے میں پالیسی میکرز ذمہ دار ہیں۔علاوہ ازیں بچوں کے حقوق اور چائلڈ لیبر کے بہت سے ادارے تو موجود ہیں مگر وہ اوور لیپ ہو چکے ہیں،کئی تو فعال ہی نہیں انہیں ریفارمز کرنے کی ضرورت ہے۔افشاں تحسین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آرٹیکل 25اے پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا۔جب عالمی اداروں کی جانب سے دباوٗ ہو تو کچھ ادارے متحرک ہوتے ہیں تاہم یہ محض وقتی پریکٹس ہوتی ہے جس کا کوئی کارآمد نتیجہ نہیں نکلتا۔ہمیں ان بچوں کو سوشل سیکورٹی دینا ہو گی ورنہ جیسا سلوک ان کے ساتھ ہو گا یہ ویسا ہی معاشرے کو لٹائیں گے۔بچوں پر سرمایہ کاری کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ غریب مزدور بچے بھی معاشرے کا مفید شہری بن سکیں۔


گزشتہ پچیس سال سے ساوٗتھ ایشیا اور افریقہ میں اقوام متحدہ اور این جی اوز کے ساتھ جینڈر اور لیبر کیلئے  کام کرنے والے ڈاکٹر سیف اللہ چوہدری کہتے ہیں کہ جب تک حکومت بھٹہ مزدور بچوں کیلئے کچھ نہیں کرتی این جی اوز کچھ نہیں کر سکتیں جبکہ ہمارے ہاں ممبران حکومت کو اس مسئلے سے آگاہی ہی نہیں ہے۔2009-10 میں پنجاب حکومت نے چائلڈ لیبر کیخلاف کام کرتے ہوئے کئی بھٹے بند کروا دیئے تھے تاہم مسلسل مانیٹرنگ نہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ وہی صورتحال پیدا ہو گئی۔اس کے علاوہ 2014میں پنجاب حکومت نے ان بچوں کی غیر رسمی تعلیم کیلئے ایک ارب روپے گرانٹ کی منظوری دی تھی مگر یہ منصوبہ بھی فائلوں کی نذر ہو گیا۔ڈاکٹر سیف اللہ چوہدری کا کہنا ہے بچوں کو معاشرے کا مفید شہری بنانے اور ان کے روشن مستقبل کیلئے غیر رسمی تعلیمی اداروں کا قیام ناگزیر ہے جہاں تعلیم اور ہنر ساتھ ساتھ ہوں۔ان بچوں میں اپنے حقوق کیلئے شعور و آگاہی پیدا کی جائے۔زیادہ نہ سہی بنیادی تعلیم ہی دی جائے تا کہ یہ اپنا حساب کتاب ہی کر سکیں۔علاوہ ازیں انہیں زگ زیگ ٹیکنالوجی کی تعلیم و تربیت بھی دی جانی چاہئے تاکہ وہ اگر بھٹہ کا کاروبارہی کرنا چاہتے ہیں تو ماحولیاتی آلودگی کو روکنے کے اصولوں پر کاربند ہو سکیں۔تاہم حکومتی عملی اقدامات تک تبدیلی ناممکن ہے۔ہمیں اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے جب تک بچے ہماری ترجیح نہیں ہونگے ہمارا مستقبل تابناک نہیں ہو سکتا۔  

صدر بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن چوہدری غضنفر نے اپنے موقف میں کہا کہ اب بھٹوں پر کم لیبر بچے ہیں زیادہ تر افغانی لوگ ہیں جو اپنے بچوں اور عورتوں سے کام نہیں کرواتے۔میرے بھٹے پر کام کرنے والے زیادہ تر بچے قریبی سرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔والدین کو سمجھا سمجھا کر تھک گئے ہیں مگر وہ خود بچوں سے کام کرواتے ہیں ہم تو قانون کے مطابق چلنا چاہتے ہیں۔چوہدری غضنفر نے مزید کہا کہ اب سوشل میڈیا کا دور ہے اب کوئی ظلم و زیادتی برداشت نہیں کرتافوری میڈیا پر اپ لوڈ کر دیتا ہے جس کا فوری ایکشن بھی ہوتا ہے۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ان بچوں کی سہولیات کیلئے اقدامات کرے۔

صدر اسلام آباد بار شکیل عباسی کا کہنا ہے کہ چائلڈ لیبر قانوناً جرم ہے۔اس کے خلاف کام کر رہے ہیں بہت سے بچے بھٹوں سے بازیاب بھی کرائے۔جلد ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کر کے بچوں کے بنیادی حقوق کیلئے بات کرینگے۔  

پاکستان کے معروف تحقیقاتی ادارے  ایس ڈی پی آئی نے اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے  ایس ڈی جیز اور آئی ایل او کے کنونشنز پر عمل درآمد کے لیے ایک فریم ورک تیار کیا ہے۔ یہ فریم ورک اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز اور آئی ایل او کے لیبر قوانین پر عمل درآمد کو آسان بناتا ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز اہداف پر ایک فریم ورک عمل درآمد کرنے کا پابند ہے۔ یہ ایس ڈی جیز اہداف اور اس کا فریم ورک پاکستان میں بسنے والے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی سے متعلق ہیں۔  ان ایس ڈی جیز کے اہداف میں باقاعدہ ایک فریم ورک پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے، جس میں ایس ڈی جی 8، ایس ڈی جی 12 اور ایس ڈی جی 13 وہ اہداف ہیں جن میں مزدوروں کے لیے کام کرنے کا ماحول بہتر ہونا ضروری ہے۔ 

 یعنی انہیں پینے کا صاف پانی ملے، واش رومز کی سہولت ہو، 


ماحولیات آلودگی نہ ہو، انہیں صحت اور ان کے بچوں کے لیے تعلیم کی سہولت ہو۔مزدوروں کے لیے اس فریم ورک میں لیبر قوانین پر عمل درآمد، ان کی رجسٹریشن، ان کے لیے ای او بی آئی میں رجسٹریشن وغیرہ شامل ہیں۔یہ فریم ورک، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے اصولوں  کے مطابق ہے ۔  ایس ڈی پی آئی کی وسیع تحقیق کے بعد اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے مزدوربچوں کے سماجی،تعلیمی مسائل سے  نمٹنے کے لیے ایک خاکہ بھی  پیش کیا ہے۔ادارہ بچوں کو ان کا بنیادی تعلیمی حق دلوانے کیلئے کوشاں ہے۔

دوسری جانب انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق پاکستان نے بچوں کے حقوق کے کنونشن (سی آر سی) اور کم از کم عمر کے کنونشن (سی 138) کی توثیق کی ہے، جس میں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے اور ملازمت میں داخلے کی کم از کم عمر 15 سال مقرر کی گئی ہے۔ تاہم، پاکستان ان معاہدوں پر عملدرٓمد کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان عالمی اداروں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے بچوں کی تعلیم و صحت کے حوالے سے خصوصی اقدامات اٹھائے۔خاص طور پر بھٹہ پر کام کرنے والے بچوں کیلئے زیادہ نہ سہی بنیادی تعلیم کی فراہمی کیلئے غیر رسمی تعلیمی ادارے بھٹوں پر ہی قائم کر دیئے جائیں تا کہ بچے کام کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کر سکیں۔اس طرح ان بے شناخت اور معاشی مسائل میں گھرے بچوں میں شعور و آگاہی پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے بچپن کی کچھ رنگینیاں تو واپس لٹائی جا سکتی ہیں۔حکمرانوں کو اس حوالے سے سنجیدہ کوششیں کرنا ہونگی۔

کوئی تبصرے نہیں