Page Nav

HIDE

تازہ ترین خبر:

latest

تربیت کا فقدان

 طاہرہ حسین         آج کے ترقی یافتہ دور میں تعلیم و تربیت کے حصول پر زور تو دیا جاتا ہے مگر یہ نہیں سمجھا جاتا کہ کن سنہرے اصولوں پر عمل پ...

 طاہرہ حسین        

آج کے ترقی یافتہ دور میں تعلیم و تربیت کے حصول پر زور تو دیا جاتا ہے مگر یہ نہیں سمجھا جاتا کہ کن سنہرے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر  اعلیٰ تعلیم و تربیت ممکن ہے۔ یوں سب سے پہلے یہ جانناضروری ہے کہ آخر تربیت کیا ہے؟ 

تربیت عربی زبان کا لفظ ہےاور اس کے لغت میں معنی پرورش کرنا یا پالنا پوسنا کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں دیکھا جاۓ تو شخصیت سازی کے عمل کو تربیت کہا جاتا ہے ۔

تعلیم و تربیت کا حصول ہر فرد کے لیے بہت ضروری ہے جس میں والدین اور اساتذہ مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔آج کے والدین اور اساتذہ بچوں کی تعلیم کے معاملے میں تو بہت محتاط ہیں مگر تربیت کے مفہوم سے بھی ناآشنا نظر آتے ہیں ۔

اور یہ بات  درست ہے کہ اب  تعلیم کے مقابلے میں  تربیت کی اہمیت کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے ۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تعلیم ایک لازمی جزو ہے مگر تربیت کے بغیر تعلیم بھی کسی کام کی نہیں۔ ایک فرد کی اچھی تربیت ہی اسکو معاشرے میں ایک باوقار اور معزز انسان کے طور پر پیش کرتی ہے ۔

ہمارے ہاں والدین چھوٹی عمر میں اپنے بچوں کو سکول بھیجنا تو شروع کر دیتے ہیں مگر ان کی کردار سازی پر بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ والدین بچوں کو سکول بھیج کر تصورکرلیتے ہیں کہ اب ساری ذمہ داری استاتذہ کے کندھوں پر ہے۔ اور یوں آنے والی نسل تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے کے باوجود تربیت کے فقدان کا شکار ہے ۔تربیت کا فقدان ہی ان وجوہات میں سے ایک ہے کہ آج کے دور میں زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد مایوسی اور ڈپریشن کا شکار نظر آتے ہیں ۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود وہ بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں ۔

والدین ہی ہیں جو بچوں کے اچھے بُرے کے ذمے دار ہوتے ہیں ۔ایک بچہ سب سے زیادہ اپنے ماں باپ سے سیکھتا ہےاور اس کے لیے تربیت کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔جہاں وہ ماں کے احساسات اور جذبات کو محسوس کرکے سیکھتا ہے ۔ یوں ماں کو جسمانی صحت مند ہونے کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر بھی صحت مند ہونا ضروری ہے ۔اور ایک ماں کا تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ ہونا بھی ضروری ہے ۔کیونکہ وہ ہی اپنے بچے کی سب سے بڑی استاد ہوتی ہے جو اُس کو معاشرے میں جینے کا سلیقہ سیکھاتی ہے ۔

آج کل کے والدین اپنے بچوں کو ڈاکٹر ، انجنیئر اور پائلٹ بنانے پر تو بہت فکرمند نظر آتے ہیں مگر اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ انکا بچہ معاشرے میں ایک اچھا اور بہترین انسان بھی بن کر سامنے آئے گا یا نہیں ۔

نپولین نے درست کہا تھا کہ’’تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں ایک اچھی قوم دوں گا‘‘

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک عورت معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اس کے ہاتھوں میں اولاد پلتی ہے۔اگر ماں تعلیم یافتہ ہونے کے  ساتھ تربیت یافتہ ہوگی تو اسی صورت وہ اپنی اولاد کی بھی اونچے معیار پر تربیت کرے گی جو ان کو معاشرے میں اعلی مقام دلوائے گا۔

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ایک فرد کی تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت ہی اسکو معاشرے میں ایک باشعور اور باوقار انسان بنا سکتی ہے ۔

مادہ پرستی کا شکار لوگ تربیت کی اہمیت سے کبھی واقف نہیں ہو پاتے۔ ان کے نزدیک اچھی تربیت کوئی معنی نہیں رکھتی ۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال بھی اچھی تربیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ چھوٹے بڑے سب سوشل میڈیا کو استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر اکثریت سوشل میڈیا کو درست استعمال نہیں کر رہی ۔والدین کو چاہیے کہ بچوں کے موبائل کے استعمال میں بہت احتیاط سے کام لیں۔ان پر اس حوالے سے خصوصی نظر رکھی جائے ۔سوشل میڈیا نے والدین کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔والدین خود سوشل میڈیا کی رنگینیوں میں مصروف رہ کر بچوں کو بھی اس کی لت لگا رہے ہیں۔وقت کی قلت کا بہانہ بنا کر والدین خود بچوں کو اپنے سے دور کر رہے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں موبائل فون پکڑا رہے ہیں جب کہ بچوں کے بے دریغ موبائل کا استعمال انکی اخلاقی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔

علامہ اقبال صاحب کا کیا خوب شعر ہے کہ:

"افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر   فرد  ہے  ملت کے   مقدر  کا   ستارہ"

علامہ اقبال کے اس شعر سے ان کی سوچ عیاں ہوتی ہے کہ کہ ہر فرد وطن کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔اچھے اصولوں پر کی گئی تربیت ہی کسی فرد کو معاشرے میں اعلیٰ مقام دلاتی ہے۔اور ایک باوقار شخص ہی معاشرے کو اونچی سطح پر لے کر جا سکتا ہے۔ افراد مل کر معاشرہ تشکیل کرتے ہیں تو جب تربیت یافتہ افراد معاشرے میں موجود ہوں گے تو معاشرہ ضرور ترقی کرے گا۔اور جب معاشرہ ترقی کرتاہے تو مُلک بھی ترقی کی جانب گامزن ہو جاتا ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’اپنی اولاد کے ساتھ نرمی برتو،اور ان کی بہتر تربیت کرو‘‘۔ 

اس فرمان سے یہ بات ثابت شدہ ہے  کہ نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نے ہمیں اپنی اولاد کی اچھی اوراعلی تربیت کی تلقین کی ہے ۔اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہم خود کو سنواریں گے اور خود کو اس معیار پر لائیں گے کہ دوسرے ہم سے کچھ اچھا سیکھیں۔ یہ بات درست ہے کہ بچوں کے علاوہ بڑوں کو بھی اچھی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔کیونکہ انسان پوری زندگی سیکھتا ہے اور بہتر سے بہترین بننے میں لگا رہتا ہے ۔

کردار سازی اور تربیت کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو گھر میں اچھا ماحول فراہم کیا جائے۔والدین کو چاہیے کہ بچوں کے سامنے خود کو بہترین نمونے کے طور پر پیش کریں کیونکہ بچے سب سے زیادہ اپنے والدین سے ہی سیکھتے ہیں۔والدین کے اوپر یہ بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے ذہنوں کو پاکیزہ خیالات سے منور کریں۔ان میں ذہنوں میں خود احتسابی کے جذبے کو فروغ دیا جائے ۔والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کریں کیونکہ ایک مضبوط تعلق  ہی اچھی تربیت کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

والدین کی تربیت کا یہ اہم حصّہ ہونا چاہیے کہ وہ بچوں کو انسان دوست بنائیں۔ان کو سماجی رابطوں میں بہتر بنانے کے لیے ان کی مدد کریں ۔

میں یہ کہنا چاہوں گی کہ حکومت کو اس مسئلے کی جانب ضرور نظر ڈالنی چاہیے کیونکہ نوجوان نسل ہمارا سرمایہ ہیں ۔اور یہ نوجوان نسل اگر یوں ہی تربیت کے فقدان کا شکار ہوتی رہی تو ہمارا معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر پائے گا ۔اور اگر ہمارا معاشرہ ترقی نہیں کر سکے گا تو ہمارا وطن  بھی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا ۔ حکومت کو باقاعدہ طور پر والدین کے لیے تربیتی کلاسوں کا انتظام کروانا چاہیے جہاں ان کو  ٹریننگ دی جائے اور ان کو سمجھایا جائے کہ انہیں کس طرح اپنے بچوں کی تربیت اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھ کر کرنی چاہیے۔  بے شک تعلیم و تربیت لازم و ملزوم ہیں اگر کوئی شخص تعلیم حاصل کر لیتا ہے مگر تربیت کی کمی کا شکار ہوتا ہے تو وہ ایک تربیت یافتہ شخص سے کبھی بہتر نہیں ہوسکتا ۔

محمد بن قاسم کو اس کی ماں نے بولا تھا کہ "میں نے تجھے پیدا ہی اس لیے کیا تھا کہ تو اسلام کی راہ میں جہاد کرے اور ان علاقوں کو فتح کرے" ۔

  ان الفاظ میں ایک ماں کی تربیت صاف دکھائی دیتی ہے  کہ  جس کی بدولت  محمد بن قاسم نے 17برس کی عمر میں ہی ہندوستان کے معتدد علاقے فتح کرلئے۔ والدین کو اولاد کی تربیت اسلامی اصولوں پر کرنی چاہیے کہ وہ دین اور دنیا دونوں میں کامیاب ہو سکیں ۔والدین کو  چاہیے  کہ بچوں کو کیریئر پرستی اور مادہ پرستی سے دور رکھیں ۔

 ہمیں چاہیے کہ بچوں کے ذہنوں کو دینِ اسلام کی روشنی سے منور کریں اور تربیت کے فقدان کی نوبت نہ آنے دیں ۔

اللہ تعالیٰ سب والدین کو اپنی اولاد کی اعلیٰ تربیت کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

کوئی تبصرے نہیں