Page Nav

HIDE

تازہ ترین خبر:

latest

عالمی یوم تعلیم پرڈاکٹرمحمدافضل بابرکی چونکادینےوالی فکرانگیزتحریر

کسی بھی معاشرے میں معاشی، سیاسی،سماجی اورروحانی ترقی کے لئے تعلیم اہم کردار اداکرتی ہے یہی وجہ ہے کہ نبی آخرو زماں معلمِ اعظم حضرت محمدﷺ نے ...


کسی بھی معاشرے میں معاشی، سیاسی،سماجی اورروحانی ترقی کے لئے تعلیم اہم کردار اداکرتی ہے یہی وجہ ہے کہ نبی آخرو زماں معلمِ اعظم حضرت محمدﷺ نے اسلام کے پہلے غزہ بدر کی فتح میں غیر مسلم قیدیوں کی سزا مدینے کے بچوں کی تعلیم سے مشروط کر کے معاف کردی۔اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے  یونیسکونے بھی اس سال 24جنوری کو چھٹا "عالمی یومِ تعلیم"منانے کا اعلان کیا ہوا ہے جس کا اس سال کا تھیم ہے"پائیدار امن کے لئے سیکھنا"۔ آج دنیابھر میں 250ملین بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں اور 763ملین بالغ بھی ناخواندہ ہیں ترقی یافتہ و ڈیجیٹلائیزڈ دنیا میں اتنے بچوں اور انسانوں کے بنیادی حق کو پامال کرناناقابلِ قبول ہے۔

جوقومیں اپنے ہاں حقیقی ترقی کا خواب دیکھتی ہیں وہ معاشی ترقی سے کہیں زیادہ انسانی سرمائے کی ترقی کو فوکس کرتی ہیں۔ہم نے انسانی سرمائے کو جو اہمیت دی ہے وہ پوری قوم کے سامنے ہے۔ میں جب یہ تحریر کررہا ہوں تو 8فروری2024کوہونے والے جنرل الیکشنز پرتمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین قوم سے ایک بار پھر سیاسی وعدے کرنے میں مصروف ہیں لیکن انتخابی منشور واعلانات میں سماجی شعبے(تعلیم وصحت) کی ترقی اور قومی و بین الاقوامی سطح کے اہداف کا کہیں دور دور تک کوئی ذکر نہیں اس کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ایک طرف ہمارے معصوم سیاستدان مقتدرہ کی خوشنودی میں وہ حدیں بھی پار کرجاتے ہیں جن کا کبھی انہوں نے سوچا بھی نہیں ہوتا وجہ صرف ایک ہی ہے کہ اگرقوم پڑھ لکھ(خواندہ)گئی تو ان کے ڈرامائی نظریات کا پیروکار کون ہوگا دوسری جانب بصداحترام کے ساتھ میں وفاقی دارالحکومت میں 30سال سے افسرشاہی کوبھی بہت قریب سے دیکھ رہا ہوں وہ بھی اپنے منصب پر بیٹھ کرزیادہ تروسائل کی بندربانٹ اور بیرونی دوروں کو ہی ترجیح دیتے ہیں جس سے ترقی پذیرمادرِ وطن مزیدتنزلی کا شکارہے اس کی تازہ مثال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن(PIE) کا 2021-22 ڈیٹا ہے جسکے مطابق پاکستان میں آوٹ آف سکول بچوں کی تعداد کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔

اس رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ کل آوٹ آف سکول بچوں کی تعداد 2کروڑ 62لاکھ ہے جس میں پنجاب سرِ فہرست ہے جہاں 1کروڑ17لاکھ30ہزار، سندھ میں 76لاکھ30ہزار، خیبرپختونخواہ میں 36لاکھ30ہزار،بلوچستان میں 31لاکھ30ہزار اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 80ہزاربچے سکولوں سے باہر ہیں۔ یقینا اس وقت یہ رپورٹ جیسی بھی ہے سوچنے کیلئے کافی ہے۔میں کئی سالوں سے ہرفورم پر یہ بات کرتا آرہاہوں کہ ہمارے شعبہ تعلیم میں اصلاحات ناگزیرہوچکی لیکن مجال ہے کسی کے کان پر جوں تک رینگے اور رینگے گی بھی کیوں؟ پالیسی سازوں سے لیکر نفاذ کے ذمہ داران کا پاکستانی قوم کے بچوں کے ساتھ یہ مذاق76سالوں سے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت جاری ہے۔ ان کے بچوں کی تعلیم اور قوم کے بچوں کی تعلیم دو الگ الگ خانوں میں تقسیم ہے۔ 

ابھی میں قارئین کے سامنے صرف مادرِ وطن کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے کچھ حقائق سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔دستور میں 18ویں ترمیم کے بعدتعلیم صوبائی معاملہ بن چکا ہے لیکن13سالوں میں اس کا اطلاق دارالحکومت پر نا ہوسکا۔ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے لئے دو الگ الگ ذمہ دار ادارے ہونے کے علاوہ خواندگی کے نام پر کئی ادارے مقابلے میں متوازی کام کررہے ہیں اور حالت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے دورے حکومت میں 16ماہ کے وزیرِ تعلیم راناتنویرحسین سے انہی تعلیمی ترقی کے ٹھیکیداروں نے 634ملین کی گرانٹ آوٹ آف سکول بچوں کے نام پر جاری کروائی اور جیسے ہی نگران حکومت میں مددعلی سندھی نگران وزیرِ تعلیم بنے تو ان سے آوٹ آف سکول بچوں کے نام پر25ارب کا دوبارہ اعلان کروا لیا ابھی میں ساڑھے تین سالہ شفقت محمود کے دور میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تعلیم کے نام پر لیے گئے قرض ودیگر وسائل کی بات نہیں کررہا۔ 

1972میں نجی و نیم سرکاری تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لینے کے بعد1984میں فیصلے پرنظرثانی ہوئی جس کے ساتھ ہی قومی اور صوبائی سطح پر ایجوکیشن فاؤنڈیشنز کا قیام عمل میں لایا گیا جن کا اصل کام پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سے قومی و بین الاقوامی تعلیمی اہداف کا حصول تھا۔ ہمارے ہاں اس پالیسی کے نفاذ میں حائل تمام قوتیں دراصل ان اعدادوشمار کی ذمہ دار ہیں۔2005میں پہلی قومی تعلیم شماری کے بعد آج تک دوبارہ قومی تعلیم شماری کا نہ ہونا بھی  ہمارے اعدادو شمار پرایک سوالیہ نشان ہے۔ 

قومی وسائل کی تقسیم کرنے والے ڈویژنز، اداروں اور وزارتوں کو بھی اب شعبہ تعلیم میں فی طالب علم خرچ کی بنیاد پرایجوکیشن بجٹ کیطرف جانا ہوگا ورنہ وسائل کی نام نہاد پراجیکٹس پر خُرد برد تو ہوتی رہے گی لیکن اعدودوشمار پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ قوم بنانے کے لئے نسلِ نو کی آبیاری نظریہ اسلام اور نظریہ پاکستان کو سامنے رکھ کرکرنا ہوگی ورنہ حالت یہی ہوگی جو آج ہمارے قومی کھیل ہاکی کی ہے جس کی وجہ سے ہم اب تیسری بار اولمپک کھیلوں سے باہر ہوئے ہیں۔ اپنے ہاں 29امتحانی بورڈ ز پر اعتماد کی حالت یہ ہے کہ قوم کے بچے چارسال  بورڈزکی جانب سے نت نئے تجربات والے امتحانات کی تیاری میں گزار دیتے ہیں اور پھر پیشہ وارانہ تعلیم کے لئے مہنگے پیکجز پر انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرتے ہیں جن کی بھی شفافیت کو آج کل عدالتیں دیکھ رہی ہیں۔ 

اعلیٰ ملازمت کیلئے گوروں کے نظام ِ امتحانات سی ایس ایس کی حالت بھی ہم میں سے کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں ان مثالوں کا ذکر اس لئے کررہاہوں کہ انسانی سرمائے پروالدین کی جانب سے اپنے بچوں پر16سالہ تعلیمی اخراجات کے باوجود وہ نتائج اور مہارتیں نہیں حاصل ہو پاتیں جو دنیا بھر کے چھوٹے چھوٹے ممالک نے اپنے ہاں پرائمری اور ایلیمنٹری تعلیم کا حصہ بنا کر اپنے بچوں کو دی ہیں جس کی وجہ سے انکی سکلڈلیبرآج دنیا بھر میں ہم سے زیادہ ترجیحی بنیادوں پر قبول کی جاتی ہے۔ عالمی یومِ تعلیم کے موقع پر ہمیں ایک طرف آوٹ آف سکول بچوں کی تعلیم و تربیت کا معیاری نظام پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے رائج کرنا ہوگا اور دوسری جانب درسگاؤں میں موجود بچوں کو طبقاتی نظامِ تعلیم کی بھینٹ چڑھانے کی بجائے قومی و عالمی معیار کے عین مطابق مہارتوں سے لیس تعلیم کا اہتمام کرنا ہوگا۔

کوئی تبصرے نہیں