Page Nav

HIDE

تازہ ترین خبر:

latest

راولپنڈی کےعلاقہ مدن پورا کی 150سالہ پرانی تاریخ کااحوال

          (خرم بٹ) تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے افراد کیلئے ہم ایسے علاقے کا تعارف پیش کررہے ہیں جو ابھی تک اپنی تاریخ کو زندہ رکھے ہوئے ہے،...

          (خرم بٹ)

تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے افراد کیلئے ہم ایسے علاقے کا تعارف پیش کررہے ہیں جو ابھی تک اپنی تاریخ کو زندہ رکھے ہوئے ہے،گھروں کا طرزتعمیر ہی واضع کررہا ہے کہ ہمیں بنانے والے کتنے ہنرمند اورباذوق تھے۔

  ہم بات کرتے ہیں راولپنڈی گوالمنڈی کے قدیم علاقے مدن پورا کی جو 150سالہ پرانی تاریخ رکھتا ہے،یہاں ہم بتاتے چلیں کہ تقسیم ہند سے قبل مدن پورا میں دولت مند خاندان آباد تھے جنکے جان ومال کی حفاظت کیلئے دوگلیوں میں انتہائی مضبوط ایسے گیٹ نصب کئےگئے جو صبع فجر کے وقت کھولے جاتے تھے اورمغرب کے وقت بند کردئے جاتے تھے،ہندئوں نے کسی بھی قسم کی پریشانی سے بچائو کیلئے مندربھی علاقے کے اندرہی تعمیر کروالیا تھا جہاں وہ آزادنہ اور بلاخوف پوجاپاٹ کرتے تھے،اگرچہ مندرکا گبنداب بھی موجود ہے مگراسکے اندر مسلمان گھرانہ آباد ہے۔


مندرکے اردگرد حفاظتی دیواریں بھی بنائی گئیں تھیں مگرگزرتے وقت کیساتھ وہ دیواریں بھی ختم ہوچکی ہیں۔اس علاقے کے بالکل قریب سے نالہ لئی گزرتی ہے جو اس دورمیں دریا کی حیثیت رکھتی تھی،ہندومرد اس صاف پانی میں ہشیان کرتے یعنی پاک ہوتے اورمندرعبادت کیلئے جاتے تھے۔اسی طرح خواتین بھی اس پانی کو کپڑے دھونے کیلئے بھی استعمال کرتی تھیں،لیکن جوں جوں وقت گزرا صاف پانی کا دریا نالہ لئی میں تبدیل ہوگیا۔

مدن پورا کے داخلی گیٹ سے اندرداخل ہوتے ہی نظریں ان تاریخی گھروں پر ٹھہر سی جاتی ہیں جنکے نقش ونگار آپکو اس دورمیں لے جاتے ہیں جس دور میں ہندوگھرانے آباد ہوا کرتے تھے،داخلی دروازے کے گیٹ پر لگی لالہ برکت رام کی تختی جسکے ایک طرف ہندی،دوسری طرف اردو اورانگریزی زبان کے حروف دیکھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے گیٹ تعمیر کروانے والا لالہ برکت رام کہیں آپکے آس پاس ہی موجود ہوگا جو اچانک سرپر پگڑی باندھے،قیمتی کرتہ اوردھوتی زیب تن کئے آپکےسامنے آکھڑا ہوگا اورہاتھ جوڑ کر اپنے علاقے میں آپکو خوش آمدید کہے گا۔


مدن پورا کی گلیوں میں زیادہ ترڈبل سٹوری گھر ہیں جنکو کسی دورمیں چوبارے بھی کہا جاتا رہا،بہت سے گھروں کے داخلی دروازے دیار کی قیمتی لکڑی سے بنے ہوئے ہیں اگرچہ اس دور میں جدید مشینری کا تصوربھی نہیں تھا لیکن دروازوں پر ہاتھ سے بنائے گئے خوبصورت ڈیزائن یہ ثابت کررہے کہ اس دور کے لوگ کتنے محنتی اورہنر مند تھے،اکثر گھروں کے دروازوں پر بنے خوبصورت شیڈ آپکو یہ کہنے پر مجبورکردیتے ہیں کہ ان میں رہنے والے کتنے باذوق تھے۔

پتھروں اوراینٹوں سے تعمیر کئے گئے ان گھروں میں موم بتی یا دیا جلا کر رکھنے کیلئے باقائدہ خانے بنائے گئے جنکو آلہ بھی کہا جاتا تھا،چونکہ اس دور میں بجلی کی سہولت موجود نہیں تھی اس لئے گلیوں میں بھی ایسے خانے بنائے جاتے تھے جہاں مغرب کے فوراً بعد چراغ روشن کردئیے جاتے تاکہ دیر سے گھروں کو لوٹ کر آنے والوں کو اندھیرے کی وجہ سے پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔


بجلی کی سہولت نہیں تھی تو لازمی بات ہے ہوۤا اورروشنی توچاہیے تھی اسی لئے ایک ایک گھر میں کئی کئی روشن دان ہیں،لکڑی کی کھڑکیاں وجنگلے اوران پر دیدہ زیب ڈیزائن دیکھنے والے کو تعریف کرنے پر مجبورکردیتے ہیں۔

گوالمنڈی کے خوبصورت علاقے مدن پورہ کے ایک رہائشی ضیاالدین نامی بزرگ سے جب بات چیت کی گئی تو انھوں نے بتایا کہ میری پیدائش بھی اسی علاقے میں ہوئی ہے،میرے والد تقسیم ہند کے وقت بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آئے اورپھر مدن پورہ میں آکر آباد ہوئے،مدن پورہ دراصل ہندوئوں کے آبائواجداد میں سے جو بڑا بزرگ تھا اسکے نام پر رکھا گیاتھا،جو مندر اپکو نظر آرہا ہے یہ 150سال پرانا ہے،اسکے نقش ونگار وقت کیساتھ مٹ چکے ہیں مگر اسکا مضبوط گنبد بتا رہا کہ کبھی میرے اندر سات پھیرے بھی لگائے جاتے تھے،پوجا پاٹ بھی کی جاتی تھی اورپرشاد بھی تقسیم ہوتا تھا۔

مدن پورہ کے رہائشی ہندو تقیسم ہند کے وقت ایسے ہی اپنے گھربار چھوڑ کر بھارت کیلئے روانہ ہوئے تھے جیسے بھارت سے مسلمان ہجرت کرکے پاکستان آئے جن میں سے بہت سے خاندانوں کو مدن پورہ میں گھرالاٹ کئے گئے،یہاں آباد بہت سے خاندان آج بھی پرانی تاریخ کو مکمل طور پر معدوم ہونے سے بچائے ہوئے ہیں۔




کوئی تبصرے نہیں