Page Nav

HIDE

تازہ ترین خبر:

latest

بارانی علاقوں کیلئے جدید زرعی ٹیکنالوجی

میگزین رپورٹ پنجاب کے بارانی علاقوں میں کاشتکاری کیلئے جدید زرعی ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی ضرورت ہے کیونکہ یہ علاقے صوبے کی مجموعی زرعی پی...

میگزین رپورٹ

پنجاب کے بارانی علاقوں میں کاشتکاری کیلئے جدید زرعی ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی ضرورت ہے کیونکہ یہ علاقے صوبے کی مجموعی زرعی پیداوار میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بارانی علاقوں میں زیتون، گندم، مونگ پھلی، چنا، دالیں، چارے اور پھل کاشتکاروں کی معاشی حالت کیلئے انتہائی اہم زرعی اجناس ہیں جن کی فی ایکڑ پیداوار کو کئی گنا بڑھایا جاسکتا ہے بشرطیکہ بارانی علاقوں کے کاشتکار اپنے علاقوں کی مناسبت سے جدید زرعی ٹیکنالوجی، زرعی فصل کی قسم، زرعی زمین و پانی کے تجزیے اور محکمہ زراعت کے ماہرین سے مسلسل مشاورت کا عمل جاری رکھیں۔ بارانی کاشتکاری کا انحصار بارشوں پر ہونے کی وجہ سے بارشوں کے پانی کو محفوظ کرنا اور بوقت ضرورت استعمال میں لانا ان علاقوں کی کاشتکاری کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جدید زرعی ٹیکنالوجی اور پانی کے ہر قطرے کو قابل استعمال بنانے کیلئے انتہائی اہم عوامل مندرجہ ذیل ہیں۔ 

چونکہ پوٹھوار کی زمین اونچی نیچی اور ناہموار ہے لہٰذا کھیت بلحاظِ سطح اچھی طرح ہموار کیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے ٹریکٹر کے ساتھ سہاگہ، بلیڈ یا لیولر یا پھر لیزر ٹیکنالوجی کی مددلی جا سکتی ہے۔بارانی علاقوں میں فصلات کی کاشت کا دارو مدار چونکہ بارشوں کے پانی پر منحصر ہے۔ اس لیے کھیتوں کی وٹ بندی مضبوط کرنا انتہائی اہم ہے تا کہ بارانِ رحمت کا ایک ایک قطرہ کھیت میں جذب ہو جائے اور کھیت کٹاؤ اور بُردگی سے محفوظ رہے۔ وٹ بندی مضبوط کرنے کا کام فصل کاشت کرنے سے پہلے کرنا چاہیے اور ہر بارش کے بعد وٹوں کا معائنہ کرنا بھی ضروری ہے تاکہ اگر کہیں سے کوئی وٹ ٹوٹی ہوئی ہو تو اسے فوراً ٹھیک کیا جاسکے۔بارانی علاقوں میں سالانہ بارشوں کی تقسیم کچھ یوں ہے کہ مجموعی بارشوں کا دو تہائی حصہ موسم گرما میں اور ایک تہائی موسم سرما میں ہوتاہے۔ اس لیے بارانی علاقوں میں ربیع کی کامیاب کاشت کا انحصار موسم گرما میں ہونے والی مون سون کی بارشوں کے پانی کو زیاد ہ عرصہ زمین میں محفوظ کرنے پر ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک مرتبہ زمین میں گہر۱ ہل (مولڈ بولڈپلو) مون سون کی بارشوں کے شروع ہونے سے قبل چلا دینا چاہیے۔ اس عمل سے زمین کافی گہرائی تک نرم ہو جاتی ہے اور بارشوں کا زیادہ سے زیادہ پانی زمین میں جذب ہو جاتاہے۔ اس کے بعدہر بارش کے بعد زمین وتر آنے پر ایک مرتبہ عام ہل بمعہ سہاگہ چلا دیا جائے تا کہ وتر محفوظ رہ سکے۔

ڈھلوان سطح کے حامل کھیتوں میں ڈھلوان کے مخالف رخ ہل چلانا چاہیے تاکہ بارشوں کا پانی سیاڑوں میں جذب ہو سکے۔ اگر سیاڑ ڈھلوان کے متوازی ہوں گے تو پانی نہ صرف بہہ کر ضائع ہو گا بلکہ اپنے ساتھ زرخیز مٹی بھی بہا کر لے جائے گا۔یاد رہے کہ یہ طریقہ صرف کم بارش والے علاقوں میں کارگر ثابت ہوگا ورنہ زیادہ پانی اپنے ساتھ سیاڑوں کو بہا لے جائے گا۔  بارانی علاقہ جات میں موسمِ ربیع کے لیے عموماً گندم، چنے، مسور اور سرسوں کی کاشت کی جاتی ہے۔ زیادہ رقبہ گندم کے زیر کاشت ہوتا ہے۔عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ نومبر کے آخری ہفتہ سے لیکر دسمبر بلکہ جنوری تک بارشیں کم یا نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں اور فصلوں کو خشک سالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر گندم کی فصل قابل رحم ہوتی ہے۔ کم گہری جڑیں ہونے کی بنا پر گندم کا پودا جلد ہی مرجھا جاتا ہے یا اکھیڑے کاشکار ہو جاتا ہے اور پودوں کی فی ایکڑ تعداد کم ہونے کی بنا پر پیداوار گھٹ جاتی ہے۔ اس کے برعکس چنے، مسور اور سرسوں کی کاشت سے خشک سالی کا مقابلہ کرنے کی بدولت زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ خاص طور پر سرسوں کی جڑیں زیادہ گہرائی میں جا کر وتر حاصل کر لیتی ہیں۔ اس لیے بارانی کھیتوں کی تقسیم اس انداز سے ہونی چاہیے کہ مختلف قطعات میں اس موسم کی مختلف فصلیں کاشت کی جا سکیں تا کہ اگر خشک سالی آبھی جائے تو نقصان کم سے کم ہو۔خریف کے موسم میں بارانی علاقوں میں خصوصاً خطہء پوٹھوارمیں زیادہ تر رقبہ پر مونگ پھلی کاشت کی جاتی ہے جو کہ نقد آور فصل ہے۔ علاوہ ازیں جوار اور باجرہ کی کاشت بھی کی جاتی ہے تاکہ مال مویشیوں کو خوراک بھی مہیا ہوسکے۔ 

محکمہ زراعت پنجاب کی طرف سے بارانی علاقے کیلئے ترقی دادہ اقسام کاشتکاروں تک پہنچائی جا رہی ہیں۔ خریف کی دیگر فصلات مثلاً رواں اور سویابین پر بھی تحقیقی کام جاری ہے۔ رواں کی فصل جس کا دورانیہ محض چار ماہ ہے اس سے پیداوار بطور بیج اور اس کے پودے بطور چارہ استعمال ہو سکتے ہیں اسی طرح سویابین کی فصل کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان دونوں فصلوں کی کاشت اس علاقہ کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ ویسے بھی مہنگائی کے اس دور میں گوشت کا نعم البدل دالیں ہی ہیں۔ان دونوں فصلوں کی کاشت جون کے آخریا پھر اوائل جولائی میں کی جا سکتی ہے۔ نیز ان فصلوں کی کاشت سے قدرتی طریقہ سے نائٹروجن ہوا سے زمین میں جمع ہوتی رہتی ہے یوں یوریا کھاد کی مقدار زمین میں کم ڈالنی پڑتی ہے۔ بارانی علاقوں میں خصوصاً خطہء پوٹھوار میں مالٹے، سیب، آلو بخارہ اور زیتون کی کاشت پر تجربات انتہائی کامیاب رہے ہیں اس مقصد کے لیے کنواں کا ہونا لازمی ہے تا کہ بذریعہ پلاسٹک پائپ ڈرپ اریگیشن یعنی قطرہ قطرہ پانی پودوں کی جڑوں تک پہنچایا جا سکے اور پانی ضائع نہ ہو۔  اگر تھوڑی سی رقم خرچ کر کے پلاسٹک کی ٹنل بنا دی جائے اور ساتھ ہی پانی کا کوئی کنواں ہو تو پھر اس پانی کو استعمال میں لاتے ہوئے اس ٹنل میں سبزیاں اُگا کر مارکیٹ میں وقت سے قبل سبزیاں مہیا کی جاسکتی ہیں۔ موسم سرما میں موسم گرما کی سبزیاں اس ٹنل میں اُگائی اور پروان چڑھائی جا سکتی ہیں۔ 


کوئی تبصرے نہیں