Page Nav

HIDE

تازہ ترین خبر:

latest

پھول سا چہرہ اٹا ہے بیوگی کی خاک میں

(فاطمہ بتول)  کسی بھی پدرسری معاشرے میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے منصفانہ قوانین کی موجودگی اور ان پر عملدرآمد ناگزیر ہے۔ یوں تو آئین پا...

(فاطمہ بتول) 

کسی بھی پدرسری معاشرے میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے منصفانہ قوانین کی موجودگی اور ان پر عملدرآمد ناگزیر ہے۔ یوں تو آئین پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے لیکن ہمارے ہاں بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین کے استحصال کرتے سماجی رویوں اور عوامل کی روک تھام کے لیے ہنوذ کوئی مربوط نظام موجود نہیں جو ایسی ستم خوردہ خواتین کے مسائل کا حل کر سکے۔

بیوگی ہمارے معاشرے میں عورت کا ایسا ناکردہ گناہ ہے کہ جسکی پاداش میں اسے ساری زندگی سماجی حقارت اور محرومیوں کی سولی پر لٹکے رہنا پڑتا ہے ۔ کبھی کبھی تو فرسودہ رسومات اور توہمات کے زیر اثر ہمارا معاشرہ نحوست کا نام دے کر خاوند کی موت بھی بیوی کے حصے میں ڈال دیتا ہے ۔ اس کار ناکردہ کی سزا صرف بیوہ ہی کے حصے میں نہیں آتی بلکہ اسکے بچوں کو بھی معاشرتی طعن و تشنیع کا سامنا رہتا ہے۔ دیکھا گیا ہےکہ ایک بیوہ سے ناروا سلوک آنے والی نہ جانےکتنی نسلوں کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ 

میرے ہمسائے میں راشدہ کے شوہر فضل کریم  کا انتقال ہوئے ابھی چند مہینے ہی گزرے تھے جب راشدہ نے اپنے دیور کو اسکی ساس سے اس بات کا مطالبہ کرتے سنا  کہ فضل کریم  کی ملکیت میں آنے والا گھر اور دکان فروخت  کر کےاس میں سے اپنے وراثتی حصے کو  اسکے حوالے کردے تاکہ وہ اپنے ٹھپ ہوتے کاروبار کو کچھ سہارا دے سکے۔ ساس کا استفسار تھا کہ گھر بکنے پر  راشدہ اور اسکے دو بچے کہاں جائیں گے-

"کہاں جائیں گے کیا مطلب؟ بھابھی تو ابھی جوان ہے ،وہ ساری عمر ایسے ہی تھوڑی گزارے گی۔ دیکھ لینا آج نہیں تو کل وہ شادی کر لے گی۔ اور تم بچے لے کر میرے گھر آ جانا۔"

  دیور کایہ جواب راشدہ کے لیے بہت  تکلیف کا باعث تھا۔

کچھ عرصے بعد راشدہ کے شوہر کا وہ گھر  اور دکان بک گئے اور وہ  بچوں کو لے کر  ماں باپ کے گھر آ گئی۔ اس کے اور بچوں کے حصے میں آئی رقم ایک بینک اکاؤنٹ میں جمع کروا دی گئی۔ میکے آنے پر اسے معلوم ہوا کہ اسکا باپ اس کی دو چھوٹی بہنوں کی شادی اور  اکلوتے بھائی کو بیرون ملک بھیجنے کے لیے راشدہ اور اس کے بچوں کے حصے آئی رقم پر نظر جمائے بیٹھا ہے ۔ شوہر کے گھر سے نکالے جانے کے بعد اب باپ کے گھر کسی انکار کی گنجائش بھی موجود نہ تھی۔ یوں اپنے قریبی رشتوں کی ستم ظریفی کے سبب  راشدہ کو  اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ رقم بھی  باپ کے حوالے کرنا پڑی۔  

کچھ وقت اور گزرتے ہی باپ کے گھر میں بھی راشدہ اور  بچوں کا عرصہ حیات تنگ ہونے لگا۔ باپ اور بھائی اب بچوں کا سکول مہنگا ہونے کی اکثر شکایت کرتے نظر آتے اور یوں انکا داخلہ ایک قریبی مگر سستے سکول میں کرا دیا گیا. ان حالات کی خبر جب سسرال میں پہنچی تو ہنگامہ برپا ہوگیا کہ راشدہ نے  شوہر کی تمام جمع پونجی اپنے میکے میں لٹا دی اور بچوں کی تعلیم کے لیے کچھ باقی نہیں چھوڑا۔

ساس کی ضد  تھی کہ بچوں کی پرورش ٹھیک سے نہیں کر سکتی تو انھیں اسکے حوالے کر دے جب کہ والد اور بھائی چاہتے تھے کہ بچے خود راشدہ اور انکے لیے بوجھ ہیں اسلیے جن کی اولاد ہے ان کے پاس واپس چلے جائیں اور راشدہ اس ذمہ داری سے آزاد ہو جائے۔ 

یوں راشدہ کے  مرحوم شوہر کا ترکہ اسکے انتہائی قریبی عزیز وں میں بٹ جانے کے بعد وہ اور اسکے بچے مجبورا" بے سرو ساماں کرائے کے ایک کمرے میں شفٹ ہو گئے۔  راشدہ کا کٹھن امتحاں یہیں ختم نہیں ہوا  ۔ اپنا اور  بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دوڑ دھوپ کرنے جب گھر سے باہر  نکلی تو اسے اپنے انہی قریبی رشتہ داروں کی جانب سے بد چلن،  بد کردار  اور خود سر ہونےکے طعنے سسننے پڑے۔ 

ہمارے اردگرد جا بجا معاشرتی جبہ، بے حسی اور نا انصافی کی چکی میں پستی راشدہ ایسی بیواؤں کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ بیوہ خواتین کے ساتھ خاوند کے انتقال کے بعد  اسکی موت کا ذمہ دار ٹھہرائے جانے سے لے کرجائیداد میں وراثتی حق سے محروم کیے جانے، بہتان تراشی،  بچوں کے چھن جانے، گھر سے بے دخل کئے جانے، خاوند کے بھائی سے نکاح کے لیے مجبور کیے جانے،  اپنے اور بچوں کے پیٹ پالنے کے لیےگھر سے باہر نکلنے  یا دوسری شادی پر بدچلنی کا الزام تک کی یہ سب کہانیاں بہت عام ہیں اورایسی کئی کہانیاں ہمارے اردگرد ہی مل جائیں گی  ۔ بیوہ کے استحصال میں خود اپنے ہی خاندان اور گھر کے لوگ پیش پیش ہوتے ہیں اور یوں خاوند کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد وہ اپنے ہی گھر اور عزیزوں کے درمیان  تنہا رہ جاتی ہے۔

ہمارے ملک میں  سوشل سیفٹی، سوشل ویلفیر اور سوشل پروٹیکشن کےموجودہ پروگرامز  جن میں بینطیر انکم سپورٹ پروگرام،بیت المال کے زیر انتظام زکوۃ فنڈز،  آئی ایف اے کے تحت انفرادی معاشی امداد ، مائیکرو فائیننسنگ اور بیوہ  خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کئی پروگرامز موجود تو ضرور ہیں جو کہ سب کے سب انتہائی پسماندہ خواتین کی کسی حد تک مالی معاونت  کرنے کے لیے ہیں لیکن بیواؤں کے مذکورہ بالا مسائل میں داد رسی کےلیے کوئی مخصوص ریاستی ادارہ یا نظام موجود نہیں ۔ بیوہ عورتیں ان تنظیموں کے دائرے سے باہر کہیں پوشیدگی کی سفید چادر میں لپٹی سسکتی ہوئی زندگی کے دن پورے کر رہی ہیں ۔

  یہاں ضرور ت اس امر کی ہے کہ بیوہ خواتین سےمتعلق سخت قوانین موجود ہوں جن کی گرفت سے اپنے وہ قریبی عزیز رشتہ دار بھی نہ بچ سکیں جو انکے شخصی استحصال میں پیش پیش ہوتے ہیں ۔

  قرآن میں باب وراثت میں بیوہ کے حصہ سے متعلق واضح احکامات موجود ہیں ۔

بیواؤں سے برتاؤ کے بارے میں آنحضرتﷺ نے حسن سلوک اور ان کی خبرگیری کی تلقین فرمائی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ بیواؤں اور مسکین کے لیے محنت کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے، یا اس شخص کی طرح ہے جو دن کو روزے رکھتا ہے اور رات کو عبادت کرتا ہے (صحیح بخاری)۔

مگر صد افسوس کہ ہمارا معاشرہ ان سنہری تعلیمات کو یکسر فراموش کر چکا ہے جبکہ بیوہ کو اپنی حیثیت میں خودمختار انسان سمجھتے ہوئی زندگی کرنے کا اختیار دینا اسی پر نہیں بلکہ  آنے والی نسلوں پر احسان کرنے جیسا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں