Page Nav

HIDE

تازہ ترین خبر:

latest

امن اور انصاف ہی پاکستان کی پہچان بنیں گے

( کاشف شمیم صدیقی ) انتھک محنت، قربانیوں، جذبوں اور حوصلوں کی سر بلندی کا ثمر ہے کہ آج ہم آزاد فضاؤں میں سانسیں لے ر ہے ہیں، جشن منا رہے ہی...

( کاشف شمیم صدیقی )

انتھک محنت، قربانیوں، جذبوں اور حوصلوں کی سر بلندی کا ثمر ہے کہ آج ہم آزاد فضاؤں میں سانسیں لے ر ہے ہیں، جشن منا رہے ہیں، خوش ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں بسنے والے غریب عوام انتہائی اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہیں، اُن کی نہ ختم ہونے والی مشکلات، پریشانیاں اور تکلیفیں ان کی خوشیوں پر بُری طرح اثر انداز ہو رہی ہیں، پانی، بجلی، گیس، روٹی، روزی، امن و انصاف سب کا حصول سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے۔  کہا جاتا ہے کہ جس معاشرے میں انصاف نہ ہو وہ پنپ ہی نہیں سکتا، امن نہ ہو تو زندگی ڈر اور خوف کے سائے تلے بسر ہوتی ہے، عوام کو ان کے حقوق نہ ملیں تو پھر مایوسیاں، نفرتوں میں، اور پھر نفرتیں معاشرتی برائیوں میں اضافے کا سبب بن جایا کرتی ہیں۔  

جشن ِآزادی کے موقع پر ایک خیال جو بار بار ذہن میں آر ہا تھا وہ یہ کہ 14 اگست کی خوشیاں منانے کے ساتھ ساتھ ایک اور کام بھی کیا جانا چاہیے اور وہ یہ کہ ہم یہ دیکھیں کہ ہمارے ملک کے مسائل کے حل میں ہمارا اپنا کردار کیا ہو سکتا ہے اور ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں کیا ایسے کام کرسکتے ہیں جو ملکی ترقی اور خوشحالی میں مددگار ثابت ہو سکیں۔

 بات جب سماجی مصائب اور مشکلات کی ہو تو بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسے مسائل بھی ہیں کہ جن کے بارے میں اکثریت ناواقف نظر آتی ہے، اور یہ ناواقفیت بھی بہت سے مسائل کو جنم دے رہی ہوتی ہے ۔ ان مسائل  پر یا تو بات ہی نہیں کی جاتی یا پھر اگر کہیں کچھ ہوتا بھی ہے تو اسکا پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ کچھ ہوا بھی ہے۔ ۔ ۔  مثال کے طور پر کیا (بحیثیت ِ مجموعی) ہمیں اس بات کی آگاہی حاصل ہے کہ کسی جیل میں موجود کوئی قیدی آزادی کی خوشیوں کو کیسے مناتا ہو گا؟ ایک ایسا قیدی جو شاید بے گناہ ہو یا پھر جلد رہا ہو سکتا ہو لیکن مسلسل پابند ِ سلاسل ہو، یا پھر جیل میں قید معصوم بچے آزادی کے نغمے کیسے گنگنا تے ہوں گے، کیسے رہتے ہوں گے ہمارے مستقبل کے روشن ستارے ایک ایسے ماحول میں کہ جہاں وہ رہنا ہی نہیں چاہتے ہوں گے۔

 دوسری جانب  کیا ہمیں آگاہی ہے کہ خواتین کے ساتھ قید گاہ میں کیا معاملات درپیش ہوتے ہیں؟ انہیں جن مشکلات کا قید میں رہتے ہوئے سامنا ہے ان کے حل کے لیے کیا اقدامات عمل میں لائے جانے کی ضرورت ہے کیا ہمیں معلوم ہے؟ ۔ ۔ ۔ بہرحال، جیل میں موجود قیدیوں کے مسائل پر ایک بڑے پیمانے پر مؤثر، دیرپا اور ٹھوس اقدامات عمل میں لائے جانے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح سے پاکستان میں بسنے والے اقلیتی عوام کے مسائل اور پریشانیوں کو بھی بھرپور طور پر سمجھے جانے کی ضرورت ہے، بدقسمتی سے ہمارے عوام میں شامل غریب اور پسماندہ اقلیتی افراد بھی اپنے حقوق کی تلاش میں سرگرداں و پریشان نظر آتے ہیں۔ 

خواتین کو وراثتی جائداد میں حق نہ ملنا بھی پاکستان کے اہم ترین مسائل میں شمار ہوتا ہے لیکن عوام کی بڑی تعداد کو اس بارے میں بھی کوئی خاص علم نہیں ہاں البتہ خواتین سے متعلق جنسی، جسمانی اور صنفی استحصال جیسے موضوعات پراب بات ہونے لگی ہے، اس سلسلے میں مختلف پروگرامز منعقد ہو رہے ہیں اور "آگاہی کے پھیلاؤ" کے سلسلے میں کافی کام دیکھنے میں آرہا ہے، خاص طور پر این جی اوز میدان میں اُتری ہوئی ہیں۔  

بہرحال، اب بات یہ ہے کہ مسائل تو پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہیں لیکن بات وہی ہے کہ ہمیں مسائل کے حل کی تلاش میں اپنا کرادار بھی ادا کرنا ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ نظروں سے اوجھل مسائل کے بارے میں آگاہی بھی حاصل کرنا ہوگی، آگاہی سے شعور حاصل ہوجائے گا تو ہم سب "ایک آواز" بن جائیں گے، پھر اُس آواز کی گونج دور دور تک سنائی دینے لگے گی، اور پھر بل آخر ہمارا ادا کیا جانے والا کردار اور گونجنے والی آواز اپنے مقاصد حاصل کر ہی لے گی!

کوئی تبصرے نہیں